Monday 14 May 2012

آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے


آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے

کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے

صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے
مہرِ عالم تاب گزرنے والا ہے

جادو گر کی قید میں تھے جب شہزادے
قصے کا وہ باب گزرنے والا ہے

ق

سناٹے کی دہشت بڑھتی جاتی ہے
بستی سے سیلاب گزرنے والا ہے

دریاؤں میں ریت اُڑے گی صحرا کی
صحرا سے گرداب گزرنے والا ہے

مولا جانے کب دیکھیں گے آنکھوں سے
جو موسم شاداب گزرنے والا ہے

ہستی امجد دیوانے کا خواب سہی
اب تو یہ بھی خواب گزرنے والا ہے

0 comments:

Post a Comment